Breaking News

Health and Hygiene - Role of Humane Attitude

Health and Hygiene

Role of Humane Attitude   

   مثبت روئیے (جسمانی)
       ۱۔  صاف پانی کا استعمال
          پانی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی کے وجود کے لئے پانی لازم ہے۔ کائنات میں زندگی کے آثار صرف وہاں پائے جاتے ہیں جہاں پانی موجود ہے۔اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔محض انسان ہی نہیں، تمام جاندارمثلاً چرند، پرند، حیوانات،نباتات وغیر کو زندہ رہنے کے لئے پانی کی اشد ضرورت ہے۔ہم اگر پودوں کو پانی نہ دیں تو وہ سوکھ جائیں گے۔پودوں اورفصلوں کو بڑھنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے۔ جانوروں کو پانی نہ دیں تو وہ مر جائیں گے۔ حتیٰ کہ اگر زمین کے کسی ٹکرے پر بھی بارش نہ ہو تو وہ بھی بنجر ہوجاتی ہے۔
           ہماری زمین کا ستر فیصد حصہ پانی اور صرف تیس فیصد خشکی پر مشتمل ہے۔ ستر فیصد پانی میں صرف تین سے پانچ فیصد میٹھا پانی پینے کے قابل ہے۔اگرہم صاف پانی نہیں پئیں گے تو ہم بیمار پڑجائیں گے۔پانی جو زندگی کی علامت ہے،اگر آلودہ ہو جائے توانسان کی موت بن جاتا ہے۔گندے اور آلودہ پانی میں زہریلے نمکیات اور زہرآلودہ اجزاء ہوتے ہیں جو اپنے دامن میں خطرناک اور ناقابلِ علاج بیماریاں کو چھپائے ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ،ہیپاٹائتس، پولیو اورپیچش شامل ہیں۔اس طرح سے وہ پانی جسے ہم زندگی سمجھتے ہیں، ہمارے لئے موت بن جاتا ہے۔ کارخانوں سے نکلنے والے گندے پانی سے تو دریاؤں کی مچھلیاں مر جاتی ہیں۔ اس انی کو پی کر ہم کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟
          پانی کو دیکھنے، سونگھنے اور چکھنے سے ہم اس کے معیار کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ پانی اگر گدلا ہے تووہ گندا ہے۔ گدلے پانی میں چکنی مٹی اور چونا شامل ہوسکتاہے۔پانی اگر نمکین ہے تو اس میں خطرناک نمکیات اور زہریلے کیمیکلز شامل ہیں۔ پانی اگر بدبودار ہے جو اس میں مضر جراثیم شامل ہونگے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پانی بظاہر صاف نظر آتا ہے لیکن کچھ دیر رکھنے کے بعد یہ گدلا یا سُرخی مائل ہوجاتا ہے۔ پانی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسکا ذائقہ بھی ٹھیک ہوتا ہے۔ دیکھنے میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس کی Smell   بھی ناگوار نہیں ہوتی لیکن اس میں ایک انتہائی خطرناک کیمیکل  ”آرسینک“ ہوتا ہے جو اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اس سے کینسرکا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ ایسا پانی تب ہی پینے کے قابل بنتا ہے اگر اس کو مخصوص مشینوں  Water Filtration Plant   سے گزارا جائے۔
           ہمارے جسم کاتقریباً ۰۸ سے ۰۹ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔یہ ہماری پیاس بجھاتاہے، کھانے کو ہضم کرتا ہے، جلد کو تروتازہ رکھتا ہے، ہمیں چست و توانا رکھتاہے۔ اگر آپ سستی محسوس کریں تو پانی کا ایک گلاس پی کر دیکھیں۔آپ اپنے اندرتازگی محسوص کریں گے۔ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو اپنے اپنے افعال انجام دینے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نظامِ ہضم، نظامِ اخراج،نظامِ گردشِ خون وغیرہ اُسی صورت درست کام کرتے ہیں اگر جسم میں پانی کی مطلوبہ مقدارموجود ہو۔اگر ہم ضرورت سے کم پانی پئیں گے تو ہمارے جسم میں پانی کی کمی ہوجائے گی۔ اس کیفیت کو  Dehydration کہتے ہیں۔ اس میں انسان کو شدید کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔انسان سستی کا شکار ہوجاتا ہے اور کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا۔اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا جائے تو انسان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔طبی نقطہ نظرکے حساب سے ہمیں تندرست رہنے کے لئے دن میں کم از کم ۸ گلاس پانی پینا چاہیے۔صرف پانی پینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کا صاف ہونا بھی شرط ہے۔لہذاء اگرہمیں صحت مند رہنا ہے تو صاف پانی پینے کی عادت کو پنانا ہوگا۔
       ۲۔  بسیارخوری سے احتراز
          بسیارخوری سے مراد ہے ضرورت سے زیادہ کھانا۔اگر کہا جائے کہ بسیارخوری تمام امراض کی جڑ ہے تو غلط نہ ہوگا۔امام غزالی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ضرورت سے زائد کھانا اور فضول چیزوں میں اپنا وقت گزارنا عبادت گزاروں کیلئے مصیبت سے کم نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب ان پر غور کیا تواس میں دس مصیبتیں پائیں۔
۱۔       اس سے دل سخت ہو جاتا ہے اوردل کا نور ختم ہوجاتا ہے۔
۲۔        فسادات اور فضول کاموں میں خواہ مخواہ توجہ اور رغبت ہوجاتی ہے۔ آنکھیں حرام کوتکنے کی آرزو مند، کان فضول سننے کے شوقین، زبان بے ہودہ بولنے اور قدم گمراہی کے راستے پر اٹھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔
۳۔        علم اورعقل کی کمی رونما ہوتی ہے۔
۴۔        بدن بوجھل اور اعضاء سست ہو جاتے ہیں۔
۵۔        عبادت کی لذت اور مٹھاس ختم ہوجاتی ہے۔
۶۔        مشتبہ اور حرام چیزوں میں پڑنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔
۷۔        دل اور بدن مال کو حاصل کرنے اور کھانے میں مشغول رہتا ہے۔
۸۔      کیونکہ موت کی شدت کا دارو مدار دنیاوی لذتوں پر ہے۔ لہذاء جو دنیازیادہ لذتیں اٹھائے گا، اس پر اتنی ہی موت کی سختی ہوگی۔
۹۔         بندہ دنیا کی لذتوں کے پیچھے لگا رہتا ہے اورآخرت کو بھول بیٹھتا ہے۔
۰۱۔     اس کو میدان حشر میں دنیا کی حلال چیزوں کے حساب و کتاب کے لیے دیر تک روکا جائے گا۔
        ۲۔ بدن کی اندرونی صفائی
          بہترین صحت کے لئے بدن کی اندرونی صفائی اوربیرونی صفائی بہت ضروری ہے۔اگرجسم کے اندر فاسد مواد ہوں تو یہ کئی جسمانی بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔مہینے میں ایک بار جلاب لینا، ہفتہ میں ایک یاں دو بارروزہ رکھنا، اتنا دوڑنا کہ پسینہ آجائے اور  بھاپ کا غسل کرنا فاسد مواد کے اخراج کے لئے اچے اعمال ہیں۔
       ۳۔ کچی سبزیوں کا استعمال
           چیزوں کوزیادہ دیر تک پکانے سے ان میں موجود وٹامن کی ایک بڑی ہوجاتی ہے۔اس لئے جب بھی موقع ملے، کچی سبزیاں کھائیں۔سلاد کے پتے، گاجر، مولی، بند گوبھی، کھیرااور پودینہ،ہری مرچ، لہسن اور پیاز سے بنی چٹنی صحت کے لئے بہت مفید ہے۔
       ۴۔ لمبے سانس لینا
           زندگی کی ڈورسانس سے بندی ہوئی ہے۔ جب تک سانس چلتا ہے، زندگی کی گاڑی بھی چلتی رہتی ہے۔لہذالمبے لمبے سانس لینااور تازہ و کھلی ہوا میں زیادہ سے زیادہ دیر تک رہنا ہماری صحت کے لئے بہت مفیدہے۔لمبے سانس لینے سے زیادہ مقدارمیں آکسیجن ہمارے خون میں شامل ہوجاتی ہے۔ دن میں کئی بار سیدھے کھڑے ہوکر لمبے لمبے سانس لیناتھکاوٹ اورسردرد کودورکرنے میں بہت مفید ہیں۔
       ۵۔ باقائدہ ورزش
           روزانہ باقاعدگی کے ساتھ ورزش کریں۔ اس سے جسم کے تمام اعضاء حرکت میں رہتے ہیں اوراعضاء میں لچک پیدا ہوتی ہے۔پیدل چلنا سب سے بہترین ورزش ہے جس سے جسم کے تمام اعضاء حرکت میں رہتے ہیں۔اگر گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے کئے جائیں توورزش کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ہمارے پیارے نبی  ﷺ  تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔
       ۶۔  زندگی بخش غسل
          روزانہ غسل کی عادت کو اپنانا صحت مند زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس سے جسم کے اعصاب پرسکون ہوتے ہیں اورجسم میں تازگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
       ۷۔ دھوپ میں بیٹھنا
          سردیوں میں دھوپ میں بیٹھنا ہماریوں ہڈیوں کے لئے بہت ضروری ہے جس سے جسم کو وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے۔ اس سے خون کی گردش بھی تیز ہوتی ہے۔شدیدگرمی میں دھوپ سے بچنا بہت ضروری ہے۔ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا کا غسل(کھلی ہوا میں جہل قدمی) بہت مفید ہے۔
        ۸۔ نشیلی چیزوں کا استعمال
          نشیلی چیزیں جن میں تمباکو نوشی و تمباکو خوری، پان،نسوار، چونا، کتھا، چھالیاوغیرہ سے مکمل پرہیزصحت مند زندگی کے لئے ناگزیرہے۔ چائے،کافی اور قہوہ کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی نقصان سے خالی نہیں۔ اس سے نیند کم ہوجاتی ہے اور ہاضم کی وقت کمزورہوجاتی ہے۔خاص کر ناشتہ کے ساتھ چائے پینے سے خوراک میں موجود آئرن کوخون میں شامل کرنے کاجسمانی نظام بہت متاثرہوتاہے۔
       ۸۔ازواجی زندگی میں بے اعتدالی
          ازواجی زندگی میں اعتدال اور پاکیزہ سوچ دماغی صلاحیت کو جلا دینے کا موجب ہے اور اس کا ناجائز اور حد سے زیادہ استعمال زندگی کے درخت پر کلہاڑا چلانے کے مترادف ہے۔
      مثبت انسانی روئیے (نفسیاتی)
       ۱۔پاکیزہ اورمثبت خیالات
           انسان خیالات کا پتلا ہے۔ خیالات ہی انسان کوآسمان پر پہنچا سکتے ہیں اور یہ خیالات ہی تحت الشریٰ میں لے جاتے ہیں۔لہذاء خیالات کی پاکیزگی لازمی ہے جو آدمی جیسا سوچے گا ویسا بن جائے گا۔ ہرحال میں خوش رہنا چاہیے۔ یہی زندگی کا حقیقی فلسفہ ہے اس لیے مایوسی اور فکر کو پاس نہ آنے دیا جائے۔
       ۲۔ معافی اوردرگذر
          زندگی کوپرسکون طریقہ سے گزارنے کے لئے معافی اوردرگذر سے بڑا کوئی نسخہ نہیں۔اللہ کا انسان کو سب سے بڑا تحفہ اس کو لوگوں سے ”درگذر“ کرنے کی قوت دینا ہے۔لیکن  لوگوں کی ایک بڑی تعداداس دولت سے محروم اوراس کے فوائد سے لا علم ہے۔یہ ایسا نسخہ کیمیاء جس کی تہ تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس پر عمل کرنے والے کو اطمینانِ قلب اور سکون کی دولتِ پے پایاں میسرآتی ہے۔یہ ُاسی وقت ممکن ہے جب ہم آپسی غلطیوں کو درگزرکرنااپنی عادت بنا لیں۔
       ۲۔ تنظیم اورنظم وضبط
           کائنات کا سارا نظام ”تنظیم اور نظم وضبط“ کا مرہون ومنت ہے۔جس طرح حدود کے اندر بہتا دریا بے شمار بندگان خدا کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اگر یہی حدودٹوٹ جائیں تو دریا کا پانی ہزاروں کی تباہی کاباعث بن جاتا ہے۔ اسی طرح ”تنظیم اور نظم وضبط“کے اصولوں کے تحت گزاری گئی زندگی لطف وسروراورکامیابی کا سرچشمہ ہوتی ہے اور تنظیم سے باہر بے قاعدہ زندگی آفتوں اور مصیبتوں کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے ہرپہلو، ذات کے ہررخ، کاروبار کی ہر جہت، کھانے پینے، سونے جاگنے، اُٹھنے بیٹھنے، کھیل کود غرضیکہ ہرمیں تنظیم کا خیال رکھنا صحت منداور کامیاب زندگی گذارنے کا ایک راہنماء اصول ہے۔
        ۳۔کام سے ایمانداری برتنا
           فرائض کی پوری اورایماندارنہ ادائیگی سے ضمیرمطمئن رہتا ہے اور دل پر کوئی بوجھ نہیں رہتا۔ اس سے انسان پرسکون رہتا ہے۔
       ۴۔آرام اور سکون
          اپنے جسم پر اس کی استعاعت سے بڑ ھ کر بوجھ مت ڈالیں۔اس سے اعصاب پردباؤبڑھ جاتا ہے جس سے جسم پر تھکاوٹ کا غلبہ  اور دماغ نڈھال ہوجاتاہے۔
       ۵۔گہری اورپرسکون نیند
           گہری نیند لینا عمر کو بڑھانے کا خاص جزو ہے۔لہذاء سونے سے پہلے اپنے ذہن کو تمام خیالات سے خالی کرلیں۔سونے سے پہلے اگر آپ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے عمل سے گزار لیں اور اپنی غلطیوں کی اللہ سے معافی مانگ کر آئندہ اسے دھرانے سے توبہ کرلیں تو آپ کا دل مطمئن ہوجائے گا۔ اکثر اوقات جو لوگ نیند نہ آنے کی شکائت کرتے ہیں وہ انتشارِ خیالات کے مریض ہوتے ہیں۔ سونے سے پہلے تمام تفکرات اللہ کے حوالے کردیں اور امید رکھیں کہ اللہ آپ کی ہرپریشانی دورکرے گا تو پرسکون نیند کے مقصدکو حاصل کیا جاسکتا ہے۔رات اگر سونے سے پہلے قرآن شریف کے چند اوراق پڑھنے کو اپنا معمول بنا لیاجائے تو فوراً نیند آجاتی ہے۔اگر سونے سے قبل وزوکرلیا جائے تو روح پرسکون اور تنے ہوئے اعصاب  ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔

No comments